تحریر۔ناصر اللہ بیگ
یہ کہانی ٹک ٹاک کی نہیں، بلکہ کئی عشروں پر محیط گہرے اور مسلسل جاری معاشرتی زوال کی داستان ہے۔ ٹک ٹاک تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات ہے، جو کوویڈ۔ 19 کے دوران مقبول ہوئی۔ اصل مسئلہ وہ بیمار ذہنیت ہے جو ہماری رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔ ہماری اجتماعی بے حسی، چند گروہوں کی بالادستی، اور آئین و قانون کی مسلسل پامالی نے اس معاشرے کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے جہاں ظلم اب روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اس ناکارہ نظام نے گٹر کے کیڑوں کو اژدھوں میں بدل دیا ہے۔
آج حالات یہ ہیں کہ اخبار یا ٹی وی نیوز بلیٹن کسی عصمت دری، قتل یا جنسی تشدد کی خبر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آج کوئی جگہ محفوظ نہیں بچی نہ گھروں کی چار دیواری، نہ اسکول، نہ مدارس، نہ درگاہیں، نہ عبادت گاہیں۔
کیا وہ خواتین جو قائداعظم کے اصل مزار والے کمرے میں بدسلوکی کا شکار ہوئیں، ٹک ٹاکر تھیں؟
کیا کراچی میں قبروں میں دفن 48 خواتین، جن کے ساتھ زیادتی ہوئی، سوشل میڈیا کی شہرت کی طلبگار تھیں؟
کیا چونیاں کی وہ معصوم بچیاں، جنہیں اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا، ٹک ٹاکرز تھیں؟
کیا سات سالہ زینب، جس کی لاش (جنسی زیادتی کے بعد ) ایک کچرے کے ڈھیر سے ملی، کسی ایپ پر ویڈیوز بنایا کرتی تھی؟
کیا مختاراں مائی، جسے پنچایت کے حکم پر اجتماعی زیادتی کے بعد برہنہ کر کے گاؤں میں گھمایا گیا، سوشل میڈیا پر رقص کرتی تھی؟
کیا گومل یونیورسٹی کی وہ طالبات، جنہیں ان کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ (عریبیہ) حافظ صلاح الدین نے ہراساں کیا، انفلوئنسرز تھیں؟
کیا اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے 5000 فحش ویڈیوز کی برآمدگی کے پیچھے سوشل میڈیا تھا؟
کیا قصور کے اُس ویڈیو اسکینڈل میں زیادتی کا شکار بننے والے 300 بچے سوشل میڈیا سٹارز تھے؟
جب ملک میں ہر 45 منٹ بعد کوئی نہ کوئی جنسی درندگی کا نشانہ بن رہا ہے، تو کیا ہم واقعی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ”وہ باہر کیوں نکلی تھی؟“ یا ”کیا اس نے ویڈیو بنائی تھی؟“
اصل سوال یہ ہے کہ ہم کب تک مظلوموں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرتے رہیں گے؟ کب ہم اس معاشرتی تعفن کا اعتراف کریں گے جو ہمارے اندر سے اٹھ رہا ہے؟
2024 میں صرف خواتین کے خلاف 32,000 سے زائد تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ روزانہ اوسطاً 9 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔ ملک میں قتل، اغوا، اور اجتماعی زیادتی جیسے جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے مطابق، روزانہ 20 ملین پاکستانی فحش ویب سائٹس تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا مسئلہ ٹک ٹاک ہے؟ یا وہ بیمار ذہنیت جس نے شلوار کے اندر پھنس کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے؟
بندر کے ہاتھ میں استرا دے دیا جائے تو اس کی اپنی دم ہی کٹتی ہے۔ ان سماجی پلیٹ فارمز پر دستیاب مواد کی افزائش انہی صارفین کے ہاتھوں ہوتی ہے، جن کا دایاں ہاتھ سکرین پر اور بایاں ہاتھ زیر ناف ہوتا ہے۔ یہی لوگ سینہ تان کر بھاشن دیتے ہیں، جن کا اصل چہرہ اوپر خدا اور نیچے گوگل کو معلوم ہے۔
مسئلہ اس ایپ میں نہیں، مسئلہ ان نظروں، ان نیتوں، اور اس سوچ میں ہے جو ہر جرم کے بعد آئینہ دیکھنے کے بجائے مظلوم کو ہی موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ جب تک یہ سوچ زندہ ہے، نہ کوئی بچہ محفوظ ہے، نہ کوئی عورت، نہ کوئی قبر، نہ کوئی عبادت گاہ۔
اس مفلوج نظام نے سماجی کارکن اور ہر دل عزیز شخصیت یوسف حسن کی کمر توڑ دی ہے۔ ثناء یوسف اخری نہیں اور نہ ہی یہ داستان یہاں ختم ہوتی ہے۔ کون جانتا ہے، کل اس بے رحم آگ کی لپیٹ میں کون آ جائے گا۔
جون ایلیا نے برسوں پہلے جو کہا تھا، وہ آج کے منظرنامے پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے :
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے