ثقافتی فخر یا زبردستی؟

تحریر: نعمان احمد
سندھ کی ثقافت اپنی رنگینی اور گہرائی کے لیے مشہور ہے، اور اجرک اس ثقافت کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ خوبصورت کپڑا، جو اپنے منفرد نمونوں اور رنگوں کے لیے جانا جاتا ہے، سندھی شناخت کا ایک فخر ہے۔ ہر قوم کی اپنی ثقافت ہوتی ہے، اور ہمیں ایک دوسرے کی ثقافت کی عزت کرنی چاہیے۔ لیکن جب ہم اپنی ثقافت کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرتے ہیں، تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ آج کل سندھ میں ایک عجیب صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں ٹریفک پولیس کی جانب سے “اجرک والی نمبر پلیٹ” لگانے پر زور دیا جا رہا ہے، اور نہ لگانے کی صورت میں چالان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کے اقدامات سے اجرک کی محبت بڑھتی ہے یا نفرت؟

ثقافت کو پھیلانے کا سب سے مؤثر طریقہ محبت، احترام اور رضاکارانہ شرکت ہے۔ اجرک جیسے ثقافتی ورثے کو اگر لوگوں تک پہنچانا ہے تو اسے تحفے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، ثقافتی میلوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، یا تعلیمی پروگرامز کے ذریعے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب قانون کی آڑ میں ثقافت کو مسلط کیا جاتا ہے، جیسے کہ “2200 کا چالان کیونکہ تم نے اجرک والی نمبر پلیٹ نہیں لگائی”، تو یہ لوگوں کے دلوں میں محبت کے بجائے نفرت پیدا کرتا ہے۔ لوگ اسے اپنی آزادی پر حملہ سمجھتے ہیں، اور یہ احساس سماجی ہم آہنگی کے بجائے تقسیم کو بڑھاتا ہے۔

مثال کے طور پر، اگر ہیلمٹ یا ڈرائیونگ_LICENSE کے قوانین کی بات کی جائے تو یہ قابل فہم ہیں، کیونکہ ان کا مقصد لوگوں کی حفاظت ہے۔ ہیلمٹ نہ پہننے سے آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، اور بغیر_LICENSE کے گاڑی چلانا دوسروں کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن اجرک والی نمبر پلیٹ نہ لگانے سے کس کا نقصان ہو رہا ہے؟ یہ نہ تو حفاظتی معاملہ ہے اور نہ ہی کوئی سماجی فائدہ دیتا ہے۔ یہ صرف ایک ثقافتی علامت کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش ہے، جو لوگوں میں بیگانگی کا باعث بنتی ہے۔

یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب ہم اسے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اگر آج اجرک والی نمبر پلیٹ لازمی کی جا رہی ہے، تو کل کوئی اور سیاسی یا ثقافتی گروہ اپنی شناخت کو اسی طرح مسلط کر سکتا ہے۔ یہ منطقی طور پر ناقابل قبول ہے۔ ثقافتی شناخت کو قانون کے ذریعے مسلط کرنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ یہ سماج میں نفرتوں اور تقسیم کو جنم دیتا ہے،
حل یہ ہے کہ ثقافت کو محبت سے پھیلایا جائے۔ اگر حکومت اجرک کو فروغ دینا چاہتی ہے تو وہ اسے مفت تقسیم کرے، اسے تحفے کے طور پر پیش کرے، یا اس کی اہمیت کو عوام تک مثبت انداز میں پہنچائے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں اجرک کے لیے محبت پیدا ہوگی، نہ کہ نفرت۔ زبردستی کے قوانین سے عوام میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جو طویل مدت میں سماجی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہے۔ اجرک جیسا خوبصورت ورثہ نفرت کا نہیں، محبت کا پیغام ہونا چاہیے۔

Facebook Comments Box