ہر طرف شور مچاہواہے چینی مہنگی ہوگئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ہوشربا اضافہ مسائل پیدا کررہاہے تقریبا ً ہر سال کبھی آٹا اور کبھی چینی یقینی طورپر مہنگی ہوجاتی ہے کیونکہ ان کااستعمال تمام اشیاء خوردونوش سے زیادہ ہے اس لئے بحران در بحران جنم لیتے رہتے ہیں چینی کی رسد، کھپت اور قیمتوں میں استحکام ہمیشہ مسئلہ بنارہتاہے حالانکہ شوگر انڈسٹری کو اگر سب سے زیادہ منافع کمانے والا کاروبارکہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا یہ واحد کاروبار ہے جسے کسی کاروباری حریف یا مقابلہ بازی کاسامنا نہیں کرناپڑتا کیونکہ پیداوار سے زیادہ اس کی کھپت ہے۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے کل مالکان کی تعداد 48 ہے جن کی ملکیت 90 شوگر ملیں ہیں تاہم ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نامی سرکاری ادارے کا کہناہے کہ اس وقت مجموعی طور پر 72 شو گر ملز کام کر رہی ہیں جبکہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی تعداد 85 ہے جن کی اکثریت یعنی 45 شوگر ملز پنجاب میں قائم ہیں جبکہ سندھ میں ان کی تعداد 32 اور خیبر پختونخوا میں 8 ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں اکثر شوگر ملز مالکان حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے منافع کی قیمت عام صارفین کو چکانی پڑتی ہے کیونکہ یہ سب کے سب کسی نہ کسی انداز میں حکومت کا حصہ ہیں جن میں بیشترحکمران ہیں موجودہ صدر آصف زرداری خاندان (اومنی گروپ) کے پاس 18 سے 21 شوگر ملیں ہیں، جو کہ کل ملوں کا تقریباً 22 سے 25 فیصد بنتا ہے۔ شریف خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس 12 سے 16 شوگر ملیں ہیں، جو کہ کل ملوں کا تقریباً 15 سے 20 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر، دونوں خاندانوں کی ملکیت میں تقریباً 37 سے 45 فیصد شوگر ملیں ہو سکتی ہیں۔تاہم، یہ اعداد و شمار ایکس پر پوسٹس،سوشل میڈیا اور کچھ ویب رپورٹس پر مبنی ہیں، جن کی صداقت کی مکمل تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر، ایکس پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ زرداری خاندان کی 18 اور شریف خاندان کی 12 شوگر ملیں۔درحقیقت ملک میں قائم کئی شوگر ملز کاروباری افراد کے علاوہ بااثر سیاسی شخصیات اور خاندانوں کی ملکیت میں بھی ہیں شوگر ملز مالکان پر مشتمل بڑے بڑے گروپس میں جہانگیر ترین بھی شامل ہیں جمالدین والی شوگر مل کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ہیں جس کی ملکیت میں تین شوگر ملز ہیں۔ ان میں دو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور ایک سندھ کے ضلع گھوٹکی میں موجود ہے۔اس گروپ کے بورڈ کے ڈائریکٹر اور چیئرمین مخدوم احمد محمود ہیں جو سابق گورنر پنجاب ہیں۔ اسی طرح ان کے بیٹے سید مصطفی محمود بھی ایک بورڈ کے ایک ڈائریکٹر ہیں جو رحیم یار خان سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے ہیں۔رحیم یار خان گروپ کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق اس کی ملکیت شوگر مل رحیم یار خان میں واقع ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مخدوم عمر شہر یار ہیں جو سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہیں۔ الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کے تفصیلات کے مطابق اس گروپ کے مالکان میں کیسکیڈ ٹیک کمپنی بھی شامل ہے جس میں چوہدری مونس الہی شیئر ہولڈرز ہیں وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے بیٹے ہیں۔ یہی رحیم یار خان شوگر ملز، الائنس شوگر ملز کی بھی مالک ہے۔ اشرف گروپ آف انڈسٹریز کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع بہاولپور میں واقع اشرف شوگر ملز چوہدری ذکا اشرف کی ملکیت ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اور صد رآصف زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ شریف گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی ملکیت میں دو شوگر ملز ہیں جن میں سے ایک رمضان شوگر مل اور دوسری العربیہ شوگر مل ہے۔ شریف گروپ کی بنیاد میاں محمد شریف نے رکھی تھی جو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے والد ہیں۔اسی طرح کشمیر شوگر مل الشفیع گروپ کی ملکیت ہے جو شریف فیملی کے رشتہ دار ہیں۔حسیب وقاص گروپ تین شوگر ملوں کا مالک ہے۔ گروپ کی ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات کے مطابق اس کی ملکیت میں حسیب وقاص شوگرملز، یوسف شوگر ملز اور عبداللہ شوگر ملز ہیں۔ حسیب وقاص گروپ میاں الیاس معراج کی ملکیت ہے جو میاں نواز شریف اور میاں شہاز شریف کے کزن ہیں۔ ملتان میں قائم فاطمہ شوگر مل کی ویب سائٹ پر معلومات کے مطابق اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فیصل مختار ہیں جو ملتان کے سابق ضلع ناظم ہیں۔ نون شوگر ملز کے بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیف اللہ خان نون ہیں جو معروف سیاسی خاندان نون فیملی کا حصہ ہیں۔ راجن پور کا دریشک خاندان انڈس شوگر ملز راجن پور میں حصہ دار ہے۔ 2018 کے انتخابات میں راجن پور سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے سردار حسنین بہادر خان دریشک ماضی میں صوبے کے وزیر خزانہ اور لائیو سٹاک کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ ان کے الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق وہ اس مل میں حصہ دار ہیں۔ تاندلیانوالہ شوگر ملز کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق اس کی ملکیت میں دوسرے افراد کے ساتھ ہمایوں اختر خان بھی شامل ہیں جو سابق وفاقی وزیر ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون اختر خان بھی ہیں جو اس وقت وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں۔ رحیم یار خان گروپ کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق اس کی ملکیت شوگر مل رحیم یار خان میں واقع ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مخدوم عمر شہر یار ہیں جو سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہیں اسی طرح سندھ میں شوگر ملز کی ملکیت کو دیکھا جائے تو اومنی گروپ کی ویب سائٹ پر فراہم معلومات کے مطابق یہ گروپ نو شوگر ملز کی مالک ہے جن میں انصاری شوگر ملز، باوانی شوگرملز، چمبر شوگر ملز، خوسکی شوگر ملز، لاڑ شوگر ملز، نو ڈیرو شوگر ملز، نیو دادو شوگر ملز، نیو ٹھٹھہ شوگر ملز اور ٹنڈو اللہ یار شوگر ملز شامل ہیں۔ اومنی گروپ انور مجید کی ملکیت ہے جو اگرچہ براہ راست سیاست میں شامل نہیں تاہم ان کا شمار صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ انور مجید کو آصف زرداری کے ساتھ جعلی بینک اکاونٹس کیس میں شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔سندھ کے ضلع بدین میں قائم مرزا شوگر ملز کی سٹاک مارکیٹ پر دی گئی آخری معلومات کے مطابق اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شامل ہیں جو سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے شوہر ہیں۔ خیبر پختونخوا میں قائم شوگر ملز میں پریمیئر شوگر ملز اور چشمہ شوگر ملز عباس سرفراز خان کی ملکیت ہے جو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی وفاقی کابینہ کا حصہ تھے۔ اسی طرح تاندلیانوالہ شوگر ملز کا ایک یونٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہے جو جنرل اختر عبدالرحمن فیملی کی ملکیت ہے۔ شوگر انڈسٹری کو حکومت ہرسال اربوں روپے کی سبسٹڈی بھی دیتی ہے اس کے باوجود قیمتوں میں استحکام نہیں آتا چینی کی قیمتیں بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اس کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام شوگر ملزمالکان کو وہدایت کریں کہ وہ پبلک انٹرسٹ میں اپنے مفادکو محدود کردیں کیونکہ وہ سب کے سب محب وطن پاکستانی ہیں شوگر ملز کے علاوہ بھی ان کے بہت سے کاروبارہیں چینی کی قیمتوں میں توازن کے بارے میں سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہناہے کہ ’کرشنگ سے لے کر چینی کی قیمت مقرر کرنے اور چینی کی در آمد و برآمد ہر جگہ حکومتی مداخلت چینی کے بحرانوں کو جنم دیتی ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ اس سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔‘ان کی تجویز ہے کہ ’حکومتی مداخلت کے بجائے مارکیٹ فورسز چینی کی قیمت اور اس کی طلب و رسد کا تعین کریں انھوں نے کہا کہ گھریلو صارفین کے لئے اگر چینی پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے تو حکموت کے ریونیو پر کوئی فرق نہ پڑے گا کیونکہ زیادہ مقدار میں چینی انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے۔ ’تاہم گھریلو صارفین کے لئے سیلز ٹیکس کے چینی پر خاتمہ سے اس کی قیمت میں کمی لائی جا سکتا ہے۔‘ معاشی ماہرین کی تجاویزکی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہے جو مسلمہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خالصتاً انسانی ہمدردی کے پیش ِ نظرشوگر انڈسٹری مالکان اپنے ہموطنوں کو ریلیف دینے کیلئے کوئی جامع پالیسی مرتب کریں تو بہتری لائی جاسکتی ہے کیونکہ آئے روز چینی کی قیمتوں میں اضافہ سے لوگوں کا بجٹ شدید متاثرہوتاہے جس سے عام آدمی ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔