بجٹ 2025 اور اہم نکات

تحریر۔عثمان غنی

پاکستان کا مالی سال 2025۔ 26 کا بجٹ 17.57 ٹریلین روپے کا ہے، جو معاشی اصلاحات، ترقیاتی منصوبوں اور عوامی ریلیف کے وعدوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کیا جا سکتا ہے :

اہم نکات
PSDP (Public Sector Development Programme) کے تحت 1150 ارب روپے مختص
صوبائی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 650 ارب روپے
توانائی کا شعبہ
مختص رقم: 300 ارب روپے
حکومت نے بجلی اور گیس کے نظام کی بہتری کے لیے بھاری سرمایہ مختص کیا ہے۔ خاص طور پر
دیہی علاقوں میں بجلی کی فراہمی، قابل تجدید توانائی، شمسی و ہوا کے منصوبے، ٹرانسمیشن لائنز کی بہتری
تعلیم
مختص رقم: 100 ارب روپے

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے فنڈز میں اضافہ، نئے اسکول اور کالجز کی تعمیر، ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ کے لیے منصوبے

صحت
مختص رقم: 80 ارب روپے
دیہی طبی مراکز کی اپ گریڈیشن، ویکسینیشن پروگرامز، سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کی بہتری
پانی و زراعت
مختص رقم: 120 ارب روپے، ڈیموں کی تعمیر و مرمت، جدید آبپاشی نظام
کسانوں کو سبسڈی و سہولیات

مختص رقم: 50 ارب روپے۔ ای گورننس کی ترویج، فری لانسنگ اور سافٹ ویئر انڈسٹری کو سپورٹ، نیا ”ڈیجیٹل پاکستان“ فیز II، بجٹ کے ممکنہ اثرات

مالی سال 2025۔ 26 کے وفاقی بجٹ میں پاکستان کی ٹیرف اصلاحات معاشی استحکام، برآمدی نمو، اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہیں۔ ذیل میں ٹیرف اصلاحات سے متعلق اہم نکات درج کیے گئے ہیں جو بجٹ 2025۔ 26 کا حصہ ہیں :

1۔ **کسٹمز ڈیوٹی اصلاحات**:

**ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی (ACDs) **: بجٹ میں ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کو چار سال کے عرصے میں مکمل طور پر ختم کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے درآمدی اشیا کی لاگت کم ہوگی اور کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ 5 )

**ریگولیٹری ڈیوٹی (RDs) **: ریگولیٹری ڈیوٹی کو پانچ سال میں مرحلہ وار ختم کرنے کا منصوبہ ہے، جو درآمدات پر عائد اضافی بوجھ کو کم کرے گا۔

**کسٹمز سلیب کی سادگی**: کسٹمز ٹیرف کو آسان بنانے کے لیے سلیب کو 0 %، 5 %، 10 %، اور 15 % تک محدود کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے ٹیرف کا ڈھانچہ زیادہ شفاف اور کاروبار دوست ہو گا۔

**اوسط ٹیرف کی شرح**: اوسط ٹیرف کی شرح کو کم کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں کمی اور مقابلہ جاتی صلاحیت بڑھے۔

2۔ **فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) **:

پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے، جو یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہو سکتی ہے۔ اس سے تعمیراتی شعبے میں سرگرمیاں بڑھیں گی اور ٹیکس آمدن میں اضافہ متوقع ہے۔

تاہم، کیپٹل گین ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز بھی زیر غور ہے، جو جائیداد کی خرید و فروخت پر اخراجات بڑھا سکتی ہے۔

3۔ **جنرل سیلز ٹیکس (GST) **:

850 سی سی تک کی مقامی گاڑیوں پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 12.5 % سے بڑھا کر 18 % کرنے کی تجویز ہے، جس سے چھوٹی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔

بیکری مصنوعات، کھاد، اور کیڑے مار ادویات پر نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، جس سے ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔

سولر پینلز پر 18 % ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، جو قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

4۔ **سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکس**:

سگریٹ اور مشروبات پر ٹیکسوں میں کمی کی تجویز ہے، جو ہر سال ٹیکس بڑھانے کی روایت کے برخلاف ہے۔ اس سے یہ اشیا نسبتاً سستی ہو سکتی ہیں، لیکن صحت کے حلقوں کی جانب سے تنقید کا امکان ہے۔ ]

5۔ **سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل آمدن**:

سوشل میڈیا، یوٹیوب، اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے کمائی کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فری لانسنگ اور آن لائن آمدن پر اضافی ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔

6۔ **سابقہ فاٹا ریجن**:

سابقہ فاٹا ریجن کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے، جس سے اس خطے کے کاروباری طبقے پر براہ راست اثر پڑے گا۔

7۔ **پیٹرولیم لیوی**:

پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو فی لیٹر 100 روپے سے زائد کرنے کی تجویز ہے، جو ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔

8

بجلی کے بلوں پر ڈیٹ سروس سرچارج اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، جو یکم جولائی 2025 سے نافذ ہو گا۔

**تجزیہ**:

یہ ٹیرف اصلاحات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدات کے تحت مالی نظم و ضبط اور ٹیکس آمدن بڑھانے کے اہداف سے ہم آہنگ ہیں۔ کاروباری طبقے نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ نئے ٹیکسز اور لیویز سے مہنگائی بڑھے گی اور کاروباری سرگرمیاں محدود ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب، کسٹمز ڈیوٹی اور ایف ای ڈی میں کمی سے رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبوں کو فروغ ملنے کی توقع ہے، جو معاشی سرگرمیوں کو بڑھا سکتا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق، ان اصلاحات کا مقصد پاکستان کی معیشت کو برآمدی ترقی کی طرف منتقل کرنا اور درآمدی انحصار کم کرنا ہے، لیکن عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھنے کا خدشہ ہے۔

روزگار کے نئے مواقع

پاکستان کے مالی سال 2025۔ 26 کے بجٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کئی اقدامات شامل ہیں، لیکن ان کی کامیابی کا انحصار عمل درآمد اور معاشی حالات پر ہے۔ درج ذیل نکات بجٹ میں روزگار کے مواقع کے حوالے سے اہم ہیں :

روزگار سے متعلق اہم اقدامات:
ترقیاتی منصوبے :

ریکوڈیک پراجیکٹ: بجٹ میں ریکوڈیک جیسے بڑے منصوبوں کے لیے 1 ٹریلین روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ کان کنی اور متعلقہ صنعتوں میں ہزاروں براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے۔

بنیادی ڈھانچہ: موٹرویز، ڈیمز، اور توانائی کے منصوبوں کے لیے مختص فنڈز (تقریباً 1,200 ارب روپے ) تعمیراتی شعبے میں روزگار کے مواقع بڑھا سکتے ہیں، جو لیبر مارکیٹ کا بڑا حصہ ہے۔

صنعتی ترقی:

ایکسپورٹ پروموشن: کسٹمز ڈیوٹی کے سلیب کو آسان بنانے ( 0 %، 5 %، 10 %، 15 %) اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی (ACDs) کے خاتمے سے برآمدی شعبہ (خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زراعت) کو فروغ مل سکتا ہے۔ یہ صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ کر کے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔

ایس ایم ایز کے لیے مراعات: چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) کے لیے ٹیکس مراعات اور آسان قرضوں کی سہولت سے نجی شعبے میں روزگار بڑھ سکتا ہے۔

آئی ٹی اور ٹیکنالوجی:

آئی ٹی سیکٹر: بجٹ میں آئی ٹی کے شعبے کے لیے مراعات اور فری لانسنگ کو فروغ دینے کے اقدامات شامل ہیں، جو خاص طور پر نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ تاہم، ٹیک کمپنیوں پر 5 فیصد ٹیکس کا نفاذ اس شعبے کی ترقی پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

ڈیجیٹلائزیشن: ای۔ گورننس اور ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کے منصوبوں سے ٹیک ماہرین اور ڈیجیٹل کاروباروں کے لیے مواقع پیدا ہوں گے۔

سرکاری ملازمتوں میں اضافہ:

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 6 فیصد اضافہ اور نئی بھرتیوں کے امکانات سے سرکاری شعبے میں روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں۔ تاہم، یہ محدود پیمانے پر ہے۔

تنقیدی جائزہ:
چیلنجز:

بجٹ خسارہ: بجٹ خسارہ ( 6,501 ارب روپے ) اور قرضوں پر انحصار ( 8,207 ارب روپے سود کی ادائیگی) کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز محدود ہیں، جو روزگار کے مواقع کو متاثر کر سکتا ہے۔

ٹیکس بوجھ: نئے ٹیکسز (مثلاً پٹرولیم لیوی، ایکس۔ فاٹا/پاٹا پر سیلز ٹیکس) کاروباری اخراجات بڑھا سکتے ہیں، جو نجی شعبے کی ملازمتوں پر اثر ڈال سکتے ہیں۔

دفاعی اخراجات: دفاع کے لیے 2,550 ارب روپے کے مقابلے میں ترقیاتی بجٹ ( 1,200 ارب روپے ) کم ہے، جو روزگار پیدا کرنے والے شعبوں جیسے تعلیم اور صحت کو متاثر کرتا ہے۔

نوجوانوں اور غیر ہنر مند افراد:

بجٹ میں ہنر مندی (skilling) پروگرامز یا غیر ہنر مند افراد کے لیے خصوصی اقدامات کی تفصیلات واضح نہیں ہیں۔ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی (جوان) کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا بڑا چیلنج ہے۔

زرعی شعبے، جو بڑی آبادی کو روزگار دیتا ہے، کے لیے مخصوص مراعات محدود ہیں، جو دیہی علاقوں میں بے روزگاری بڑھا سکتا ہے۔

عمل درآمد کے مسائل:

ماضی میں ترقیاتی منصوبوں کا بروقت نفاذ اور شفافیت ایک مسئلہ رہا ہے۔ اگر فنڈز کا درست استعمال نہ ہوا تو روزگار کے متوقع مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔

بنیادی سہولیات کی دستیابی
برآمدات میں اضافے کا امکان
خدشات اور چیلنجز
فنڈز کے استعمال میں شفافیت
کرپشن اور بیوروکریسی کی رکاوٹ
سیاسی عدم استحکام کے باعث منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر

4۔ **معاشی اہداف**: ایف بی آر کے مطابق ٹیکس ٹارگٹ 14,000 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو محصولات کے نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔

تنقیدی نکات:

1۔ **بجٹ خسارہ**: بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد ( 6,501 ارب روپے ) تک رہنے کا امکان ہے، جو قرضوں پر انحصار کو ظاہر کرتا ہے۔ پچھلے سالوں کے مقابلے میں ترقیاتی بجٹ ( 1,200 ارب روپے ) قرضوں اور سود کی ادائیگی ( 8,207 ارب روپے ) کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

2۔ **ٹیکس بوجھ**: نئے ٹیکس اقدامات جیسے کہ ٹیک کمپنیوں پر 5 فیصد ٹیکس، ایکس۔ فاٹا/پاٹا اشیا پر 10 فیصد سیلز ٹیکس، اور پٹرولیم پر 2.5 سے 5 روپے فی لیٹر لیوی عوام اور کاروباری طبقے پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔

3۔ **دفاعی اخراجات**: دفاع کے لیے 2,550 ارب روپے مختص ہیں، جو ترقیاتی بجٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ ترجیحات پر سوالات اٹھاتا ہے، کیونکہ معاشی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے اور تعلیم جیسے شعبوں کی ضرورت زیادہ ہے۔

4۔ **محصولات کا نظام**: وزیر خزانہ کے مطابق ٹیکس گیپ 505 ٹریلین روپے ہے، جو نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ نئے ٹیکس اقدامات اس خلا کو کم کرنے میں کتنا کامیاب ہوں گے، یہ واضح نہیں۔

5۔ **سبسڈیز اور پنشنز**: سبسڈیز کے لیے 1,186 ارب اور پنشنز کے لیے 1,055 ارب روپے مختص ہیں، جو غیر ترقیاتی اخراجات ( 16,286 ارب روپے ) کا بڑا حصہ ہیں۔ یہ وسائل کی تقسیم میں عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے

معاشی اہداف بجٹ 2025

مالی سال 2025۔ 26 کے وفاقی بجٹ میں پاکستان کے معاشی اہداف درج ذیل ہیں، جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدات، مالیاتی استحکام، اور پائیدار ترقی کے تناظر میں تیار کیے گئے ہیں :

معاشی ترقی (GDP گروتھ) :
ہدف: 3.6 % شرح نمو (گزشتہ سال 2.68 % تھی) ۔

توقع ہے کہ زراعت، صنعت، اور خدمات کے شعبوں میں بہتری سے یہ ہدف حاصل ہو گا، لیکن توانائی کے بحران اور مہنگائی چیلنجز ہیں۔

مہنگائی کی شرح:
اوسط سالانہ مہنگائی: 6.29 % متوقع۔

خوراک، ایندھن، اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود سخت مالیاتی پالیسی سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ:
ہدف: 2.1 ارب ڈالر (GDP کا تقریباً 0.5 %) ۔
برآمدات بڑھانے اور درآمدات کم کرنے پر توجہ، خاص طور پر غیر ضروری درآمدی اشیا پر پابندیوں سے۔
ٹیکس آمدن:
ہدف: 13,000 ارب روپے سے زائد (گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 % اضافہ) ۔
نئے ٹیکس اقدامات، جیسے کہ سوشل میڈیا آمدن، رئیل اسٹیٹ، اور پیٹرولیم لیوی سے آمدن بڑھانے کی کوشش۔
بجٹ خسارہ:
ہدف: GDP کا 5.9 % تک محدود رکھنا۔
سخت اخراجات کنٹرول اور غیر ترقیاتی بجٹ میں کمی سے خسارے کو کم کرنے کی کوشش۔
برآمدات:
ہدف: 32 ارب ڈالر سے زائد۔
ٹیکسٹائل، زراعت (خاص طور پر چاول اور پھل) ، اور آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات کو فروغ دینے پر زور۔
ترسیلات زر (Remittances) :
ہدف: 33 ارب ڈالر سے زائد۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات کو مستحکم رکھنے کے لیے بینکنگ چینلز کو مضبوط کیا جائے گا۔
زر مبادلہ کے ذخائر:
ہدف: 18 سے 20 ارب ڈالر تک بڑھانا۔
آئی ایم ایف قرضوں، سعودی/چینی سرمایہ کاری، اور برآمدی آمدن سے ذخائر میں اضافہ متوقع۔
زرعی ترقی:
زرعی شعبے کی ترقی کی شرح: 3.8 % ہدف۔
کھاد، بیج، اور واٹر مینجمنٹ پر سبسڈیز کے ذریعے پیداوار بڑھانے کی کوشش۔
صنعتی ترقی:
صنعتی شعبے کی ترقی کی شرح: 4.2 % ہدف۔
خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز کو فروغ دینے پر توجہ۔
چیلنجز:
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سخت مالیاتی پالیسی سے عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھے گا۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور عالمی معاشی دباؤ معاشی اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام اور کرپشن ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کو متاثر کر سکتی ہے۔
تجزیہ:

یہ اہداف معاشی بحالی اور پائیدار ترقی کی جانب ایک مثبت قدم ہیں، لیکن ان کا انحصار حکومتی پالیسیوں کے موثر نفاذ، عالمی معاشی حالات، اور گورننس کی بہتری پر ہے۔ مہنگائی اور

ٹیکسز سے عوام پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، جو سیاسی چیلنجز کو جنم دے سکتا ہے۔
معاشی اہداف بجٹ 2025

مالی سال 2025۔ 26 کے وفاقی بجٹ میں پاکستان کے معاشی اہداف حسب ذیل ہیں، جو آئی ایم ایف معاہدات، مالیاتی استحکام، اور پائیدار ترقی کے تناظر میں ترتیب دیے گئے ہیں :

جی ڈی پی گروتھ:
ہدف: 3.6 % (گزشتہ سال 2.68 %) ۔

زراعت، صنعت، اور خدمات کے شعبوں میں بہتری سے حصول متوقع، لیکن توانائی بحران اور مہنگائی رکاوٹیں ہیں۔

مہنگائی کی شرح:
اوسط سالانہ مہنگائی: 6.29 %۔

سخت مالیاتی پالیسی سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوشش، لیکن ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ چیلنج ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ:
ہدف: 2.1 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 0.5 %) ۔
برآمدات بڑھانے اور غیر ضروری درآمدات کم کرنے پر توجہ۔
ٹیکس آمدن:
ہدف: 13,000 ارب روپے سے زائد ( 40 % اضافہ) ۔
نئے ٹیکسز (سوشل میڈیا، رئیل اسٹیٹ، پیٹرولیم لیوی) سے آمدن بڑھانے کی منصوبہ بندی۔
بجٹ خسارہ:
ہدف: جی ڈی پی کا 5.9 %۔
غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور مالی نظم و ضبط سے خسارہ کم کرنے کی کوشش۔
برآمدات:
ہدف: 32 ارب ڈالر سے زائد۔
ٹیکسٹائل، زراعت (چاول، پھل) ، اور آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے کی حکمت عملی۔
ترسیلات زر:
ہدف: 33 ارب ڈالر سے زائد۔
بینکنگ چینلز کی مضبوطی سے ترسیلات کو مستحکم رکھنے کی کوشش۔
زر مبادلہ ذخائر:
ہدف: 18۔ 20 ارب ڈالر۔
آئی ایم ایف قرضوں، سعودی/چینی سرمایہ کاری، اور برآمدات سے اضافہ متوقع۔
زرعی ترقی:
ہدف: 3.8 % گروتھ۔
کھاد، بیج، اور واٹر مینجمنٹ پر سبسڈیز سے پیداوار بڑھانے کا منصوبہ۔
صنعتی ترقی:
ہدف: 4.2 % گروتھ۔
خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز پر توجہ۔
چیلنجز:
آئی ایم ایف کی شرائط سے ٹیکس بوجھ اور مہنگائی میں اضافہ۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور عالمی معاشی دباؤ۔
سیاسی عدم استحکام اور کرپشن سے منصوبوں کی تکمیل متاثر ہو سکتی ہے۔
تجزیہ:

یہ اہداف معاشی بحالی کی جانب اہم ہیں، لیکن کامیابی کا انحصار پالیسی نفاذ، عالمی حالات، اور گورننس پر ہے۔ مہنگائی اور ٹیکسز سے عوام پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

تنقیدی نکات:

بجٹ خسارہ: بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد ( 6,501 ارب روپے ) تک رہنے کا امکان ہے، جو قرضوں پر انحصار کو ظاہر کرتا ہے۔ پچھلے سالوں کے مقابلے میں ترقیاتی بجٹ ( 1,200 ارب روپے ) قرضوں اور سود کی ادائیگی ( 8,207 ارب روپے ) کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

ٹیکس بوجھ: نئے ٹیکس اقدامات جیسے کہ ٹیک کمپنیوں پر 5 فیصد ٹیکس، ایکس۔ فاٹا/پاٹا اشیا پر 10 فیصد سیلز ٹیکس، اور پٹرولیم پر 2.5 سے 5 روپے فی لیٹر لیوی عوام اور کاروباری طبقے پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔

دفاعی اخراجات: دفاع کے لیے 2,550 ارب روپے مختص ہیں، جو ترقیاتی بجٹ سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ ترجیحات پر سوالات اٹھاتا ہے، کیونکہ معاشی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے اور تعلیم جیسے شعبوں کی ضرورت زیادہ ہے۔

محصولات کا نظام: وزیر خزانہ کے مطابق ٹیکس گیپ 505 ٹریلین روپے ہے، جو نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ نئے ٹیکس اقدامات اس خلا کو کم کرنے میں کتنا کامیاب ہوں گے، یہ واضح نہیں۔

سبسڈیز اور پنشنز: سبسڈیز کے لیے 1,186 ارب اور پنشنز کے لیے 1,055 ارب روپے مختص ہیں، جو غیر ترقیاتی اخراجات ( 16,286 ارب روپے ) کا بڑا حصہ ہیں۔ یہ وسائل کی تقسیم میں عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے۔

بجٹ 2025۔ 26 میں کچھ قابلِ تحسین اقدامات ہیں، جیسے کہ ترقیاتی منصوبوں اور عوامی ریلیف پر توجہ۔ تاہم، بھاری دفاعی اخراجات، بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ، اور نئے ٹیکسوں کا بوجھ معاشی استحکام کے لیے چیلنجز ہیں۔ ٹیکس نظام کی اصلاحات اور برآمدی ترقی پر توجہ مثبت ہے، لیکن ان کا اثر عمل درآمد کی کامیابی پر منحصر ہے۔ مجموعی طور پر، بجٹ معاشی ترقی اور عوامی بہبود کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن قرضوں پر انحصار اور غیر ترقیاتی اخراجات کی زیادتی طویل مدتی معاشی استحکام کے لیے سوالات اٹھاتی ہے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *